اس مسافر کے لئے کوئی ہدایت کیسی
زندگی جس کے لئی روز قیامت جیسی
جب یونہی جینا مقدر ہے تو شکوہ کیسا
اپنی قسمت پہ ہمیں تم سے شکایت کیسی
چاہنے والوں کی قسمت فقط تنہائی ہے
جانے کیوں پڑ گئی دنیا میں روایت ایسی
اپنا وجود کھو کہ کیا جینا کیا مرنا ہوا
ہم سے لوگوں کے لئے کوئی عنایت کیسی
سعدی شیراز سے پوچھیں ا گر موقعہ ملا
کس گلستاں سے تراشی خوب حکائت ایسی
مجھے بیگانہ رکھتی ہے سدا ہر بزم سے عظمٰی
میری فطرت میں رکھی چیز غنائت جیسی