درد کی دیواروں پر
آس کے پرندے ہوں
امید کے گلابوں پر
ہاتھ ہاتھ کانٹے ہوں
دکھ کے اشک برسوں سے
آبدیدہ لوگوں میں
غمزدہ مکینوں میں
بے دریغ بانٹے ہوں
جس نگر کے ہر گھر میں
مفلسی موت کے بھید میں
بار بار ڈستی ہو
درد سہنا عادت ہو
اور لفظ کہنے کو
یہ زبان ترستی ہو
سوچ ک خشک صحرا میں
آبرو کا آنچل جب
ظلم کی اندھیری میں
حسرتوں ک کانٹوں سے
تار تار ہو جائے
اور دل ناداں کی
ایک معصوم خواہش ہو
ان سانسوں کے رکنے تک
اور آس کے ٹوٹنے تک
میری ملاقات
شہر غم میں خوشیوں سے
ایک بار ہو ہے
بس ایک بار ہو جائے