کاش اچھے ہی یہ سب اہلِ سیاست ہوتے
ایک ملت کی یہ جو سب ہی علامت ہوتے
کس کی ہمت تھی کوئی ان کو جھکا سکتا تھا
یہ تو دشمن کے لیے باعثِ دہشت ہوتے
کس طرح توڑ کے فرقوں میں ہمیں بانٹا ہے
اک جگہ ہوتے تو کتنی بڑی طاقت ہوتے
اب بھی سوچو کہ اگر خود کو سنبھالا ہوتا
اس طرح تو نہ کبھی قابلِ نفرت ہوتے
سب نے پرکھوں کے جو اطوار کو سمجھا ہوتا
دنیا کی نظروں میں تم قابلِ عزت ہوتے
یوں نہ ملت پہ ستم ڈھاؤ ذرا ہوش کرو
تم نے دیکھا نہیں فرعون کو عبرت ہوتے
تم نے دیکھی ہے بس اپنی ہی یہ شان و شوکت
ہم نے دیکھی ہے شہنشاہوں کی ذلت ہوتے