تھی دشمنی اسے کیسے کہے گا مہر کوئی
تمھاری باتوں کا پیتا رہا ہے زہر کوئی
میں ناگوار سی باتیں کروں ،مری توبہ
کہ جھیل سکتا نہیں آپ کا تو قہر کوئی
جدا ہوئے تھے قریب آ کے ہم سدا کے لیے
ملن کی پیار بھری رات کا تھا پہر کوئی
میں تشنگی کو لیے ڈھونڈتا رہا پانی
اگرچہ پاس مرے بہہ رہی تھی نہر کوئی
مرے مزاج کی دنیا نہیں ہے یہ دنیا
مجھے تو چاہیے دنیا سے دور دہر کوئی
مایوسیاں ہی ملیں ہیں تمھارے پہلو میں
نجانے اٹھتی ہے کیوں میرے دل میں لہر کوئی
ہوا کی طرح مسافر رہا ہوں میں زاہد
جچا نہیں مجھے اس جہاں میں شہر کوئی