ملک آزاد کو جو تو نے آج دلہن بنا دیا
جھنڈیوں اور قمقموں سے اس کو سجا دیا
اسلاف نے تھا جو اس کے لئے سب کچھ لٹا دیا
کیا دل چیرتی ہوئی اک برچھ کا حق ادا ہوا
صاحب ذی شعور نے کروائے سیمنار بہت
تقاریر اور بحث ومباحثے ہوتے رہے بہت
شامل ذکر ہوئے قائد واقبال اور اتحاد یگانگت
پر افسوس یہ سب تھے صرف زبان کی لذت
حق صدا رقص وسرور میں معدوم ہوگئی
نور و ادب کی ادا بے ہودگی میں ڈوب گئی
فرشتہ سیرت قوم ہنود و یہود میں رنگ گئی
دیکھ کر ہمارے اعمال روح محمد تڑپ گئی
آزادی کا حق کیا خوب ادا کیا ہم نے
ملک پاک کو کرپشن سے بھر دیا ہم نے
قربانی اسلاف کو رائیگان کردیا ہم نے
اسلامی قلعہ کو مقید زندان کردیا ہم نے
فرمان نبی ہوگا ہمارے حال میں شامل کب
کیبل چھوڑ کر یاد کریں گے کب اپنا رب
جان سکیں گے کب اپنی بربادی کے سبب
دانش جب ہوں ایک ہی ڈگر پہ زبان اور لب