کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
دم رخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمہارا کیا ہے
آنکھ نرگس کی‘دہن غنچہ کا‘ حیرت میری