منتظر نہیں ہیں ہم اب ہم ترے سہاروں کے
ہو چکے ہیں واقف اب ساری رہگزاروں کے
سوچتے ہیں ہم اکثر ، کیا خطا ہوئی ایسی
کیوں بدل گیۓ آخر ، ذاوئیے ستاروں کے
حسن اپنی تابش کی ، تاب لا نہیں پایا
پیڑ جل رہے ہیں جو ، احمریں چناروں کے
بند کر دیا خود پر ہر خوشی کا در ہم نے
آ کے لوٹ جائیں گے،قافلے بہاروں کے
اختلاف ہو تجھ سے، کب ہماری جرأت ہے
منتظر ہی رہتے ہیں ہم ترے اشاروں کے
دوریوں کے ساگر کو پار کر نہیں سکتے
ہم عجیب باسی ہیں دو الگ کناروں کے
لوٹ کر تری جانب اب کبھی نہ آئیں گے
سب نشاں مٹا ڈالے تیری رہگزاروں کے
پیار ہے ہمیں عذراؔ صرف اپنی مٹی سے
دیکھتے نہیں ہیں ہم خواب چاند تاروں کو