منزلِ کامگار تھا گجرات
Poet: Sagar By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKIاے فضل شاہ تیرے دوہوں میں
داستانِ حیات ملتی ہے
حُسن کی دل گداز بانہوں میں
عِشق کی کائنات مِلتی ہے
شہرِ گجرات برکنارِ چناب
مُغلیہ دَور کی نشانی ہے
اِسی وادی کے دَم سے وابستہ حُسن اور عِشق کی کہانی ہے
لوگ اسی وادئی محبت کے
عِلم و عِرفاں کا تاج رکھتے ہیں
حُسن پرور سلوک تھے ان کے عاشقانہ مزاج رکھتے ہیں
زندگی سے رَچے گلی کُوچے
جن میں شرفائے وقت رہتے ہیں
کشتیوں کے جلو میں تنکے بھی موجِ ہستی کے ساتھ بہتے ہیں
مسجدوں کے بلند مینارے
آسمانوں کی بات کرتے تھے
اہل ِ دانش یہاں اشاروں میں
دو جہانوں کی بات کرتے تھے
بِکھرے بِکھرے سے گیسوؤں والے
ہر مسافر کو ٹوک دیتے تھے
نوجواں حادثاتِ دوراں کو
زورِ بازو سے روک دیتے تھے
ماہ پارے قیام کرتے ہیں
منزلِ کامگار تھا گجرات
مغلیہ دور کے گلستاں کی جگمگاتی بہار تھا گجرات
شہرِ گجرات کے حسیں برتن
چین و ایران بھیجے جاتے تھے
دپور و نزدیک کے دیاروں میں
گل کے سامان بھیجے جاتے تھے
شہر گجرات کی حسیں گلیاں
جن میں رقصِ بہار دیکھا ہے!
سادہ مٹی کے ایک برتن میں
ذوقِ پروردگار دیکھا ہے
ہلکے ہلکے صراحیوں کے بدن
جیسے پریاں اِرم سے آئی ہیں
یا کوئی آیتیں تقدس کی
اِذن لے کر حرم سے آئی ہیں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






