خیال یار سے دل نے سجائیں محفلیں کیا کیا
جو وہ ہوں روبرو برپا ہوں شورشیں کیا کیا
میرا یقیں نہیں تو اپنے دل سے پوچھیے حضور
کہیں سے مل سکے گا تم کو میرے جیسا باوفا
منہ موڑ کے دل توڑ کہ ایسے کہیں نہ جا
جانے سے پہلے یہ کہو کیوں ہوگئے خفا
بھول کر بھی نہ کہ سکو گےمجھ کو بے وفا
چاروں طرف آئے گی نظر جب میری وفا
تمہارے سامنے رہوں کہ تم سے دور ہو جاؤں
ایک تم خفا اور دوسری صورت میں دل خفا
دل پر ستم نہیں کرو جتاؤ نہ جفا
ہم کو جفائیں نہیں کر سکتیں بے وفا