موسم دل پر اثر ہوگا نہ بدلے گی یہ رت کبھی
افسردہ ، تنہا، اداس ہوتی ھے یہ حالت کبھی
بھلاوں بھی تو بھول نہ سکوں کبھی
گئے دنوں کی وہ چاہت کبھی
کلیاں کھلکلائے نظارے جھوم اٹٰھیں
یاد آئے وہ شوخی انداز شرارت کبھی
جلا جلا کے کسر پوری کر دی اب تو
بھلا ایسی ہوتی بھی ھے الفت کبھی
چلتے ہوئے وجود خاک میں بکھرنے لگے
کسے میسر راہ خاردار میں راہت کبھی
سہ نہ سکا دل سانحہ ایسا تھا
یہ مت پوچھ گزرے گی قیامت کبھی
ایسا لمہ نہیں تیری یاد سے غافل رہے عائش
چھوٹ سکتے نہیں اوقات عبادت کبھی