وہ تھا عجیب قصہ تکرار کرتے کرتے
اقرار کر گیا وہ انکار کرتے کرتے
اس پیار کی حقیقت اب تک کھلی نہ مجھ پر
سب کجھ گنوا دیا ہے یہ پیار کرتے کرتے
ممکن نہیں ہے میرا رستے سے لوٹ جانا
مرنا ہے ساتھ منزل کو پار کرتے کرتے
قربت میں جو ملا ہے فرقت میں کھو گیا ہے
ویران ہو گیا میں بازار کرتے کرتے
موسم رقیب بن کر کروٹ بدل رہا ہے
گل ، خار بن رہے ہیں مہکار کرتے کرتے
قسمت کی مفلسی کا کردار بن گیا ہوں
اب تھک چکا ہوں میں یہ کردار کرتے کرتے
جب بھی ہوا ادھورا ھر کام ہی ہوا ہے
ھر کام رہ گیا ہے ھربار کرتے کرتے
ہے خوشنصیبی میری وہ میر~ سامنے ہے
دم یوں نکل ہی جائے دیدار کرتے کرتے