سردی نے برا حال کیا ہے
خوب دانت پہ دانت بجا ہے
مہین کپڑوں میں اب گزارا نہیں
کپڑوں کے وزن کا اندازہ نہیں
چائے کوفی کی ہے طلب بڑھی
ٹھنڈے پانی کی اب قدر گھٹی
لحاف کی سی گرمائی کہاں
“ ممی مجھے کھانا بھیج دیجئے یہاں“
دھوپ سردی کی اک نعمت
ٹھنڈ کی یہ دور کرے زحمت
پھول سے چہرے بنے لال چقندر
ہاضمہ ٹھیک تو کھاؤ جس قدر
کوثر نے اب لی کالی شال
لبنی نے بھی لیا کوٹ نکال
وہ پہاڑوں پہ برف کا سماں
قبطین کا جن پہ گزرے گماں
سرما بھی دے انساں کو گزند
پھر بھی ناصر کو یہ موسم پسند