موسم نے اکسایا تھا اور پاگل اسے بنایا تھا
اس کے ہمراہ تو شاید بس اسکا ہی سایا تھا
پہلے اس نے یہ سمجھا شاید کہ وہ اور کوئی ہے
اسی لئے تو اس سے ڈر کے پہلے وہ کترایا تھا
اکثر اندھیرے میں اس کو تنہا چھوڑ دیا کرتا تھا
سورج کی کرنوں کی بیداری نے جسے جگایا تھا
دھوپ کنارے اس کے سنگ سنگ اکثر چلتا رہتا تھا
شام کے ڈھلتے ڈھلتے جس نے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا
عظمٰی کون ہے وہ اس نے سوچا تو آخر جان لیا
وہ تو کوئی غیر نہیں اس کا اپنا ہی سایا تھا