موسم ِ دل بہار ہو جائے
جب تجھے مجھ سے پیار ہوجائے
فصل ِ الفت کو سینچ الفت سے
ڈالی ڈالی نہ خار ہو جائے
جنبشِ ِ لب نہیں تو آنکھوں سے
ورنہ ابرو سے وار ہو جائے
یوں نہیں بولتا کہ ڈر ہے کہیں
رونق ِ دل بازار ہو جائے
تیری الفت جو دیکھہ لے دنیا
دشمن ِ جاں بھی یار ہو جائے
دل تیری حسرتوں کے مرنے پہ
خواہشوں کا مزار ہو جائے
کب رکا وہ خرد کے رستے پر
جس کا دل بے کرار ہو جائے
ساعتِ وصل میکشی تو نہیں
پھر کیوں ملتے خمار ہوجائے
بزم ِ ناچار و بے کرار ہے یہ
جس کے دل کو کرار ہو، جائے
ہے صدا دل کی بزم ِ ہستی میں
میرا ہونا شمار ہو جائے
لفظ میں ڈھال کہ خیال احسن
مدتوں کا نہ بار ہو جائے