موسمِ وصل نہ رہے میرے
ہجر کے شوق بھی گئے میرے
لاش پے لاش گرتی جاتی ہے
کیا سبھی یار چل بسے میرے؟
ہوں میں اب کس کی داستانوں کا؟
عالمِ حال ہو چکے میرے
میں بھی اب اُن سے تھکنے والا ہوں
یار بھی مجھ سے ہیں تھکے میرے
ہے ندامت کہ میں تمھارا نئیں
ہے یہ شکوہ نہ تم رہے میرے
نہ ملا کوئی بھی سراغ اب تک
اس نے کیوں زخم تھے سہے میرے
سوگ گا سا سماں رہا اُس پار
اور جنازے بھی تھے اٹھے میرے
ذکر مت کیجیئے وفاؤں کا
بھر دیے زخم ہجر کے میرے
پڑ گیا کال میری نیندوں کا
خواب آنکھوں میں مر گئے میرے