مِرے بِستر پہ آتے ہی تصّوُر جاگتا ہے
تِری پائل کی چھن چھن سا کوئی سُر جاگتا ہے
کوئی بد بخت اُس شب کو بدل لیتا ہے خیمہ
مُقدّر جاگتا ہے حُر کا، سو حُر جاگتا ہے
اگرچہ تُم سے بِچھڑے بھی زمانے ہوگئے ہیں
ابھی تک تیرے لہجے کا ہی تاثُر جاگتا ہے
بہُت مُحتاط رہنے کی ضرُورت پِھر بھی ہوگی
یقیں جِتنا بھی ہو تُم کو کہ یہ گُر جاگتا ہے
یہ ہم جو بے خطر سوتے ہیں اپنے گھر میں یارو
تسلّی ہے کہ سرحد پر بہادُرؔ جاگتا ہے
کہیں پردیس میں بیٹا گیا روزی کمانے
کوئی باباؔ لِیئے آنکھیں یہاں پُر جاگتا ہے
رشِید حسرتؔ ہمیں اب فیصلہ کرنا پڑے گا
یہ ہر ہر گام پر کیسا تناظُر جاگتا ہے