مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا
اب سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دِیا ہو نہیں سکتا
اے موت مجھے تو نے مصیبت سے نکالا
صیّاد سمجھتا تھا، رِہا ہو نہیں سکتا
بس تو مری آواز سے آواز ملا دے
پھر دیکھ کہ اس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا
پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰ
آنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا
دربار میں جانا مرا دُشوار بہت ہے
جو شخص قلندر ہو، گدا ہونہیں سکتا
اس خاکِ بدن کو کبھی پہنچا دے وہاں بھی
کیا اتنا کرم بادِ صبا ہو نہیں سکتا؟