کل شب بھی تیری یاد میں بہت روئے ہم
کل شب بھی تیرے انتظار میں نہ سوئے ہم
تلاش سکوں ہی میں رہے ہم زندگی بھر
آہ، اس تلاش ہی میں کتنے بے سکوں ہوئے ہم
مل جائے سکوں شاید دفن ہی کے بعد
پس بارہا یادوں میں دفن ہوئے ہم
اے قاصد مکتوب من، بتا دینا انہیں
رخصت ہوئے ان ہی کو سوچتے ہوئے ہم
جان جاں، اب ہماری تعزیت کو نہ آنا
کہ تیرے ہی خیال میں فنا ہوئے ہم
اور بولو کیا حق خفگی تم ہی کو ہے
دیکھو کہ کس طرح خفا ہوئے ہم
اب کے تم منانا بھی چاہو تو نہ مانیں گے
کہ روٹھ گئے ہیں ٹوٹے ہوئے ہم