کوئی صورتِ حسن ہو تو دل میں بساؤں میں
یہاں تو ہر چہرہ مکرو مکرو سا ہے
خوش کیا ہونا خزاں کے جانے پہ اب
آمدِ بہار کا چرچا بھی مکرو مکرو سا ہے
چاہت وہی تھی جو پہلے لوگ کر گئے
نئی وفا کا تو سارا وجود مکرو مکرو سا ہے
روشنی کیسے مات دے گی ان اندھیروں کو
کہ زمانے کا ہر چراغ مکرو مکرو سا ہے
دکھ بھی خوشی کی طرح کم عمر لگتے ہیں
غمِ حیات کا چہرہ بھی مکرو مکرو سا ہے
کتنی آسان ہے ضمیرِ انسان کی موت شمع
کہ زندگی کا ہر عنوان مکرو مکرو سا ہے