مہ و سال میں بھی کوئی پیغام رکھا ہے
ہر پل میں تو صدیوں کا نظام رکھا ہے
یہ تپش ہی ہے جو جلا رہی ہے آگ کو
اک شرر پہ نہیں رواں یہ کام رکھا ہے
شب و روز میں آتی ہے نظر تبدلی جہاں
پیغام ہے وصل کا, امتحاں کا نام رکھا ہے
کیا ہے پوشدہ اس زمین و زماں
زیست نے تو فاصلوں کو تھام رکھا ہے
کیوں تمنائیں رقص کرتی ہیں سمیعہ
بس کچھ نہیں دلوں کو بے لگام رکھا ہے