میرے سامنے ہی لٹ گیا مرا قافلہ
میرا قافلہ تھا دعاؤں کا
میرا قافلہ تھا صداؤں کا
میرا قافلہ تو محبتوں کا امین تھا
ہر 'پیادہ' تھا اشک جیسا
ہر 'شترباں' آس لے کر چپ کھڑا تھا
گھڑسواروں کی بات ہی کیا
گھڑسوار تو "منتوں" سے اٹے ہوئے تھے
میری محبت کے بوجھ سے تو
"سفید ہاتھی" سے چلنا دوبھر ہو رہا تھا
بہت سے وعدے لے کے غلماں چل رہے تھے
اپسرائیں تھیں التجائیں
بلبلیں مرے ساتھ تھیں
شادیانے بج رہے تھے
میں اس گلی کے پاس پہنچا تو شام کب کی ڈھل چکی تھی
وہ چھت پہ بیٹھا منتظر تھا
اور چاند چودہ کا لگ رہا تھا
(میں چپ کھڑا تھا)
وہ نیچے آیا اور ہنس کے بولا
کہاں سے لائے ہو جھوٹ اتنا؟
یہ جو ساماں ہے کوڑیوں میں نا بک سکے گا
تم "کھوٹے سکے"
میری توہین کر رہے ہو
تم مجھ کو چاہو، یہ بات ہے کیا؟
نظر نا آؤ۔۔۔۔جلا دو خود کو۔۔۔۔میں جا رہا ہوں
اس ایک پل میں قافلہ میرا لٹ گیا تھا
میں ہوش اپنے گنوا چکا تھا
میں وہیں پہ گر گیا تھا
اس خسارے نے توڑ ڈالی ہے کمر میری
میں جیتے جیتے ہی مر گیا ہوں
مرا قافلہ جو لٹ گیا تھا، اسکا ماتم کر رہا ہوں
میں رو رہا ہوں یا ہنس رہا ہوں
نہیں پتا ہے
بس مر رہا ہوں
بس مر رہا ہوں
بقلم عبدالرحمن خان