مجھے زخموں کو ہرا رکھنا ہے
وقت مرہم لیے گر آئے گا
وقت کے ہاتھ جھٹک دوں گا میں
دل تِرے غم سے بھرا رکھنا ہے
گر مسرت کوئی دستک دے گی
بند پائے گی مرا دروازہ
اب اندھیرے ہی رہیں گے مجھ میں
اک کرن بھی نہ گزرنے دوں گا
خود کو ویران بنا رکھوں گا
ایک آہٹ نہ ابھرنے دوں گا
اب سیہ پوشی پہ میری روح کے
سکھ کا پیوند نہ لگ پائے گا
میرے سینے میں اُداسی کا غبار
ایسا چھایا ہے نہ چھٹ پائے گا
تیری تصویر کی رونق کے سوا
میری آنکھیں ہیں دو ویراں خانے
کوئی خوش رنگ حسیں منظر میں
پُتلیوں میں نہ اُترنے دوں گا
تیری صورت ہی رہے گی دل میں
اور کوئی نہ ابھرنے دوں گا
دسترس میں ہے جو اک شہرِخیال
بس تصور کی ترے بستی ہے
حکمِ ہجرت ہے سبھی سوچوں کو
اب یہاں ہے تو تری ہستی ہے
میری تاعمر کی تنہائی میں
تری یادیں ترا چہرہ ہوگا
تو سمجھتی ہے کہ بھرسکتا ہے
زخم تو اور بھی گہرا ہوگا