میری غزلوں کا فقط درد ہی عنواں ہوگا
مجھ سے پوچھو نہ سبب اس کا ، تو احساں ہوگا
شہرِ دل میں جو کبھی عالمِ ویراں ہوگا
کوئی جگنو ، نہ ستارہ درِ امکاں ہوگا
روٹھ جائیں گے یہ خوش رنگ مناظر سارے
دل اگر اب کے محبت سے گریزاں ہو گا
خوں رلائیں گے مجھے پھر مرے آدابِ وفا
کچھ لکھوں گی تو یہ اشعار کا عنواں ہوگا
موسمِ گل میں سبھی کچھ تو وہی ہو گا مگر
ہم نہ ہوں گے تو کہاں رنگِ بہاراں ہوگا
وقت نے کیسے بدل ڈالے خد و خال مرے
جو بھی دیکھے گا مجھے دیکھ کے حیران ہوگا
میری باتوں میں جو اکثر ہی جھلک آتا ہے
بھوُلا بھٹکا سا کوئی روح کا ارماں ہوگا
ہم دنوں میں ہی بدل ڈالیں گے فرسودہ نظام
کرنا مشکل ہے بہت ، کہنا تو آساں ہوگا
ہے کوئی ایسا بھی دل جس کو کوئی غم ہی نہیں
غمِ جاناں نہ ہوا تو غمِ دوراں ہو گا
خود سے میں ملنا تو چاہوں گی مگر اے عذراؔ
خود سے مل کر بھی بچھڑنا کہاں آساں ہوگا