میری آنکھوں سے اشکوں کی روانی نہیں جاتی
میرے زہن سے تیری اٹھتی ہوئی جوانی نہیں جاتی
تیرے بعد بھی ابھرتے ہیں، مچلتے ہیں بہت
کمبخت میرے جذبوں کی فراوانی نہیں جاتی
چھوڑ دیا ہے تخت و تاج تیرے لئے مگر
حاکم ہوں لہجے سے حکمرانی نہیں جاتی
ہوئے تھے جسکی خاطر شاہ سے فقیر ہم
خیالوں سے آج تک وہ مہارانی نہیں جاتی
جہاں رہتی ہے بڑا مشکل ہے رستہ بھی وہاں کا
اس طرف تو کوئی گاڑی باآسانی نہیں جاتی
چھوڑا ہے اس نے جب سے مجھے بے وجہ فرخ
اس بے وفا کے دل سے، پشیمانی نہیں جاتی