میری حالت بھی آپ کی سی ہے
یعنی ماہی بے آب کی سی ہے
تیری صورت نہیں گلاب مگر
تیری صورت گلاب کی سی ہے
راہ تکنا سوال ہے میرا
تیری آمد جواب کی سی ہے
سونےآنگن میں تیری جلوہ گری
طلوع آفتاب کی سی ہے
غم بھی دیتی ہوغمگساربھی ہو
تمہاری فطرت شراب کی سی ہے
دل میں طوفان اٹھ رہے ہیں مگر
آنکھ سوکھے چناب کی سی ہے
جب بھی آتی ہے دل جلاتی ہے
یاد تیری تیزاب کی سی ہے
مجھ سے چند کوس دور رہتی ہے
میری منزل سراب کی سی ہے
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
زندگی اک عذاب کی سی ہے
میری حالت تو آ کے دیکھ امن
کسی خانہ خراب کی سی ہے