کبھی سادہ کبھی سندر کبھی معصوم لگتی ہے
کبھی دلکش کبھی ہنس مکھ کبھی مغموم لگتی ہے
کبھی کھوئی سی رہتی ہے خیالوں میں اجالوں میں
کبھی الجھی سی رہتی ہے حوالوں میں مثالوں میں
ہر اک سے خندہ پیشانی سے ملتی ہے جب ملتی ہے
مگر خود سے جدا لگتی ہے جب وہ خود سے ملتی ہے
وہ جب خاموش ہوتی ہے تو بس خاموش ہوتی ہے
بات کرنا شروع کر دے تو باتیں کرتی رہتی ہے
کبھی اپنوں بیگانوں کو بہت مغرور لگتی ہے
کبھی اپنوں بیگانوں کو بہت مسرور لگتی ہے
کوئی اس کو ہوا کے دوش پہ اڑتا بادل کہدے
کوئی اس کو قفس میں قید دیوانی پاگل کہدے
وہ سن لیتی ہے سبکی بات خندہ ہیشانی کیساتھ
وہ کر لیتی ہے سب سے بات خندہ پیشانی کیساتھ
کسی بلبل کی مانند گیت اسکے ہونٹوں پہ رقصاں
امیدوں کے چمکتے تارے اس کی پلکوں پہ لرزاں
“محبت“ اس کا گہنا ہے، “محبت“ اس کا کہنا ہے
بہت سادہ طبیعت ہے اسے سادہ ہی رہنا ہے
بہت البیلی مستانی محبت کی وہ دیوانی
سوا اپنے کسی کو وہ بھولی بھالی نہ پہچانی
ملی ہے اس کے لفظوں میں محبت ہی کی روانی
ملی ہے اس کی آنکھوں میں محبت ہی کی کہانی
میری ہمدم میری مخلص وہ میری دوست پرانی
لکھی ہے جسکی کہانی میں نے لفظوں کی زبانی
مجھے وہ آج بھی پہلے جیسی معصوم لگتی ہے
بہت دلکش بہت ہنس مکھ مگر مغموم لگتی ہے
کبھی سادہ کبھی سندر کبھی معصوم لگتی ہے
کبھی دلکش کبھی ہنس مکھ کبھی مغموم لگتی ہے