میری زبان سے سچ چھین لو
جذبوں کی ہر اک زباں چھین لو
سردار بھی خلاف ہے امیر شہر کے
پھانسی سے پہلے غریب شہر کی زباں چھین لو
صدیوں سے بھٹک رہا ہے قافلہ سچ
خدارا مصلحت کا رہبر چھین لو
نا وقت کرتا ہے تنگ گدا قاضی کو
کوئی جا کے درِِعدل چھین لو
نہ لکھ پاؤں قصیدہ غریبی شیری
میرے ہاتھ سے قلم چھین لو