تم سو گئے ہو یا یہ رات سو گئی ہے
ہمیں نیند نہیں آتی کیا بات ہوگئی ہے
تجھے سونپ ہی رہے تھے بصورتِ امانت
نجانے زندگی کیوں نذرخرافات ہوگئی ہے
تیرا ظرف کم ہوا یہ گماں کروں تو کیسے
میری اپنی شاید وقعت کم ذات ہو گئی ہے
لوہے کے چہروں پر سونا چڑھا ہوا ہے
اب زندگی ہی مجموعہء کمالات ہو گئی ہے
چیتھڑے بنے ہجوم سے صرف خوں چھلک رہا ہے
گمبھیر اپنے ملک کی صورتِ حالات ہو گئی ہے
اعمال کی حقیقتِ اجتماعی ہو چکی ہے با غیانہ
یہ زمیں تبھی تو خود ہی جائے مکافات ہو گئی ہے