میری یادوں کی اک اک گلی میرے خوابوں کے سارے مکاں سو گئے
دل شب تار کی سلطنت ہو گیا جب سے اشکوں کے شہزادگاں سو گئے
پتھروں کی زمیں پتھروں کے شجر، پتھروں کے مکاں پتھروں کے بشر
کب سویرا ہوا ہم کدھر کو چلے، کس گلی شام آئی کہاں کھو گئے
کیا ہوا آج کیوں خیمئہ زخم سے کج کللاہ سے غم پھر نکلنے لگے
ہم تو سمجھے تھے اب شہر دل مٹ چکا تھک گئے درد کے کارواں سو گئے
اس کی امید پہ دل کی تمناؤں نے روشنی کے گھروندے بنائے
اک وہ کیا گیا سب دیئے بجھ گئے آرزوؤں کے سارے مکاں جل گئے
نفرتوں کے الاؤ میں جلتے بدن زیست کی دو پیرہن میں سلگتے چمن
عہد دانش کے مارے یہ انساں نما پیار کی چھاؤں پائی جہاں سو گئے
عقل کی لشکری آہنی اجنبی آہٹیں جیسے پتھرا گئی خوشبوؤں کی دوکان
دل کے بازار میں خاک اُڑنے لگی، ڈر کے یادوں کے سوداگراں سو گئے
آج کی رات اتنی اندھیری ہے کیوں، آج اتنی اکیلی ہے کیوں
جو سر شام ہم کو جگا آئے تھے اک آواز دے کر کہاں کھو گئے