میرے وطن کی مٹی کے تهےکیا کہنے
کچے تهے گهر
پر پکے تھے ناطے
یاد ہے مجھے اب بھی
وه بچپن کے دن
وه آموں کے باغ ،وه گلابوں کی کیاریاں
وہ مٹھائی کے تهال
وہ بولیاں
وه پرانی سہیلیاں
وہ امی ابا کی نوک جھونک
وہ بهنی مونگ پھلی، وہ گچک کی سوغاتیں
سہیلیوں کے سنگ آنکھ مچولی
وہ مہندی، وہ چاند راتیں
وه نئے کپڑوں کی خوشیاں
وه نانی دادی کی کہانیاں
وه روز رات میں چاند تاروں سے ہوتی تھی تکرار
وه بقر عید پر بکروں کی خریداری
وہ سادہ سے لوگ
وہ ہر ایک کا بیٹی کہ کر سر پر ہاتھ رکهنا
وه میرے گبرو ویروں کا سر جھکا کر چلنا
پتا نہیں چلا ،کہاں سب کهو گیا