میرے دل کی سماعت مے بڑی دیر سے رچتی ہے
جب. آنکھ کے لہجے سے وہ بات کو کستی ہے
انسان کے زائچے مے بڑی آلہ یہ ہستی ہے
یہ رو کر بھی تڑپتی ہے یہ ہس کر بھی برستی ہے
سخت طوفاں مے اٹھائی ہے نظر اس نے
جو نرم سانس کے لہجے سے بھی ڈرتی ہے
اسکے نہ ہونے سے جگر سوز مے رہتا ہے
خیالات کے ساغر ہے بیابان مے کشتی ہے
تیری سوچ مے بیٹھا اس حال مے رہتا ہے رضا
صحرا کی تپش جیسے پانی کو ترستی ہے