میرے زخم ھیں گلاب جیسے
تیرے ستم ھیں خواب جیسے
صدائے درد میں سوز و گداز
مرغ بسمل کے جواب جیسے
کہاں سے آ رھا ھے شور سلاسل
دن رات گہرے عزاب جیسے
میرا گھر لگے ھے دشت جیسے
میرا شہر صحرا میں سراب جیسے
میری داستان ھے اک حکایت
بچھڑی یادوں کی کتاب جیسے
کہاں گئ وہ موجہء ھوائے طرب
قریب تھی اور دور بھی سراب جیسے
حسن کارجہاں میں لوگ مصروف ھیں ایسے
لکھ رھے ھوں زندگی کا اک نیا باب جیسے