میرے سر ساز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
میری آواز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
محبت جس سے زندہ ہو مٹا دے نفرتوں کو جو
وہی انداز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
میں شاہیں ہوں، عدو صیاد سے، میرا تکلم ہے
میری پرواز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
مجھے بھی سر اٹھا کر چلنا ہے بزم نگاراں میں
میرے وہ ناز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
اٹھا بیٹھوں جو میں کوئی قدم شکوہ نہ پھر کرنا
میرا اعزاز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
کہیں یہ سانپ کی صورت نہ ڈس لے میری تنہائی
میرا دمساز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
ستارے تو سجا بیٹھے ہیں محفل کہکشاؤں کی
میرا مہ ناز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
مقابل آ گیا ہوں سامری زادوں کے پھر سے میں
میرا اعجاز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے
میرے اندر تلاطم برپا ہے مسعود رازوں کا
میرا ہمراز واپس دو مجھے بھی بات کرنی ہے