میرے قریب تو ہر شخص عادل جیسے رہا
اس کیفیت حال کا علاج قابل جیسے رہا
ایمان ہی عقیدت کو صحیح سمجھ بیٹھا
ہمارا عقیدہ تو بس باطل جیسے رہا
میں سنجیدگی کو پھر کس پہلو سے مانگتا
یہاں ہر شخص کا رخ پاتل جیسے رہا
برسنا بھی ہمارے لیئے برمحل نہ تھا
مگر سایہ تو ہمیشہ بادل جیسے رہا
میں اپنی ہی گہرایوں میں ڈوب گیا تھا
اس کا احساس تو یوں بھی ساحل جیسے رہا
حسن ترتیب کو فقرہ بازی لگ جاتی ہے
وجد میں تو ہر روش قاتل جیسے رہا