میرے مئے خانے میں جام خالی ہے
تیری گلی میں فقیر کوئی سوالی ہے
بدنصیبوں کی بات کون کرے
دھنوانوں کی ذات عالی ہے
عصر حاضر ہے کل جگ یارو
ان کی جنت کی بات خیالی ہے
بے شبہ ہم ہیں ڈوبتی ناؤ
ان کی ناؤ بھی ڈوبنے والی ہے
کیا غضب ہے کہ شاد ہیں وہ
اشارے پہ جنکے گردن کٹنے والی ہے
جو میرا آشیا ں جلا تے ہیں قیصر
ان کے دامن میں پھولوں کی ڈالی ہے