کچھ نہ کہیے نہ گر سزا کہیے
مجھ کو زنداں میں کیوں رہا کہیے
ہو مجسم نہ دے دعا کو اثر
پھر تجھے کیا بھلا خدا کہیے
میری اچھائی کی گواہی ہو
میرے منہ پر مجھے برا کہیے
دیر تک جو رقیب بیٹھا رہا
کیا سنا آپ نے ذرا کہیے
آ رزو ہو نہ زندگی کی کوئی
کیوں نہ پھر زہر کو دوا کہیے
مانا دشمن سے تو شکایت ہے
دوست ہو گر عدو تو کیا کہیے
عہد حاضر کا ہی نہیں نغمہ
مجھ کو ہر دور کی نوا کہیے
دل زباں پر سجائے پھرتا ہوں
کھوٹ رکھتا نہیں کھرا کہیے
تازگی میں مثال ہے زاہد
زخم ہے دیکھیے ہرا کہیے