کتاب دل سے ملے سورہ قرآں سے ملے
غریب وقت کو انصاف دو جہاں سے ملے
میں زخم زیست کا مرہم تلاش کرتا ہوں
نہ اس دکاں سے ملے نہ اس دوکاں سے ملے
میں اپنے آپ کو تجھ سے جدا کروں کیسے
میرے مکاں کا سایہ تیرے مکاں سے ملے
میری تو عمر انہیں کھوجتی رہی یار شفیق
تمہیں یہ پیار کے موتی کہاں کہاں سے ملے