میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی
میں بھی اچھا مری قسمت بھی نہایت اچھی
آپ کی شکل بھلی آپ کی صورت اچھی
آپ کے طور برے آپ سے نفرت اچھی
حشر کے دن ہمیں سوجھی یہ شرارت اچھی
لے چلے خلد میں ہم دیکھ کے صورت اچھی
تجھ سے کہتا تھا کوئی یا تری تصویر سے آج
آنکھیں اچھی تری آنکھوں کی مروت اچھی
ہم نے سو بار شب وصل ملا کر دیکھا
اے فلک چاند سے وہ چاند سے صورت اچھی
نہ بنے کام تو کس کام کی نازک شکلیں
نازک اچھے نہ حسینوں کی نزاکت اچھی
اس سے کوئی نہیں اچھا جو تجھے پیار کرے
میں بھی اچھا ترے صدقے مری قسمت اچھی
تیری مدفن سے جو اٹھے وہ بری اے واعظ
ان کے ٹھوکر سے جو اٹھے وہ قیامت اچھی
جور تیرے بہت اچھے ستم گردوں سے
اور ان سے تری آنکھوں کی ندامت اچھی
منہ میں جب بات رکی چوم لیا پیار سے منہ
دم تقریر کسی شوخ کی لکنت اچھی
دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے
میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی
حسن صورت کی طرح حسن سخن ہے کم یاب
ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی
تجھ سے جلتا ہے جو وہ اور جلاتے ہیں اسے
مرے حق میں مرے دشمن کی عداوت اچھی
آتے جاتے نظر آتی ہے جھلک چلمن سے
پردے پردے میں نکل آئی یہ صورت اچھی
خوگر غم کے لیے کچھ بھی نہیں عیش کا خواب
ایسی راحت سے ہمیشہ کی مصیبت اچھی
دے کے وہ بوسۂ لب شوق سے لیں دل میرا
عذر کیا ہے جو ملے مال کی قیمت اچھی
سن کے اشعار مرے سب یہی کہتے ہیں ریاضؔ
اس کی قسمت ہے بری اور طبیعت اچھی