میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی
Poet: راحت اندوری By: Asher, Sargodhaمیرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی
داد لوگوں کی گلا اپنا غزل استاد کی
اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی
وہ گلی جنت تو اب بھی ہے مگر شداد کی
عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی
داستانوں کے سبھی کردار کم ہونے لگے
آج کاغذ چنتی پھرتی ہے پری بغداد کی
اک سلگتا چیختا ماحول ہے اور کچھ نہیں
بات کرتے ہو یگانہؔ کس امین آباد کی
More Rahat Indori Poetry
میرے اشکوں نے کئی آنکھوں میں جل تھل کر دیا میرے اشکوں نے کئی آنکھوں میں جل تھل کر دیا
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا
اس نے دھوکہ دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا
یہ ہوائیں کب نگاہیں پھیر لیں کس کو خبر
شہرتوں کا تخت جب ٹوٹا تو پیدل کر دیا
دیوتاؤں اور خداؤں کی لگائی آگ نے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو جنگل کر دیا
زخم کی صورت نظر آتے ہیں چہروں کے نقوش
ہم نے آئینوں کو تہذیبوں کا مقتل کر دیا
شہر میں چرچا ہے آخر ایسی لڑکی کون ہے
جس نے اچھے خاصے اک شاعر کو پاگل کر دیا
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا
اس نے دھوکہ دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا
یہ ہوائیں کب نگاہیں پھیر لیں کس کو خبر
شہرتوں کا تخت جب ٹوٹا تو پیدل کر دیا
دیوتاؤں اور خداؤں کی لگائی آگ نے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو جنگل کر دیا
زخم کی صورت نظر آتے ہیں چہروں کے نقوش
ہم نے آئینوں کو تہذیبوں کا مقتل کر دیا
شہر میں چرچا ہے آخر ایسی لڑکی کون ہے
جس نے اچھے خاصے اک شاعر کو پاگل کر دیا
نصرت
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے مرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمینوں کے قبالے ہیں مرے پرکھوں کے نام
ان زمینوں پر مرے جینے کے لالے پڑ گئے
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرا تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
کوئی وارث ہو تو آئے اور آ کر دیکھ لے
ظل سبحانی کی اونچی چھت میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے مرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمینوں کے قبالے ہیں مرے پرکھوں کے نام
ان زمینوں پر مرے جینے کے لالے پڑ گئے
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرا تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
کوئی وارث ہو تو آئے اور آ کر دیکھ لے
ظل سبحانی کی اونچی چھت میں جالے پڑ گئے
ریاض
اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
ساجد ہمید






