میرے ہونٹوں پہ کوئی حرفِ دعا رہنے دو
پاس میرے بھی تو کچھ بہرِ خد ا رہنے دو
مجھ کو اس سے نئے رِشتے کی مہک آتی ہے
میرے ہاتھوں پہ کھلِا رنگِ حِنا رہنے دو
مجھ کو اِقرار ہے بے مایہ ، تہی دامن ہوں
میرا سرمایہ ہے بس میری انا رہنے دو
لوٹ جانے کے لئے اس کو نہ کرنا مجبور
دِل کا دروازہ کھلُا ہے تو کھلُا رہنے دو
بڑی مشکل سے تو ہموار ہوئی ہے یہ فضا
دوستی کی یونہی قائم یہ فضا رہنے دو
کیا ضروری ہے اسے توڑ کے پھینکا جاۓ ؟
شاخ پہ پھول کھِلا ہے تو کھلِا رہنے دو
ایک چھوٹا سا جو روزن ہے مرے زنداں میں
اس سے آتی یہ ذرا سی تو ہوا رہنے دو
دِل جو ٹوٹے گا تو پھر جڑُ نہ سکے گا عذراؔ
اب نہ بھاۓ گی ہمیں کوئی ادا ، رہنے دو