میں اپنے آپ سے بھی نہ ملا یہ حال رہا
مجھے جنوں میں فقط تیرا ہی خیال رہا
ملے گا مجھ کو صلہ میری بندگی کا کبھی
مرا خدا سے سدا ہی یہی سوال رہا
سنائین کیا کہ زمانے میں مفلسوں کے لیے
ہر ایک سال مصیبت و غم کا سال رہا
وفا کا بدلہ ملا بس جفا ؤں کی صورت
دل تباہ کو اس بات کا ملا ل رہا
ہر ایک گھر میں ہیں آسائشیں جہاں بھر کی
اسے تو جینا بھی اس شہر میں محال رہا
قرار دیتا تھا ملا جسے حرام کبھی
زمانہ آ گے بڑھا تو وہی ھلا ل رہا
ہر ایک شخص ہے غیبت و جھوٹ کا عادی
اسی میں لوگوں کو حاصل بڑا کمال رہا
اسی کے نام کا چرچا رہے گا دنیا میں
نبی جو سارے جہاں کے لیے مثال رہا