میں اپنے آپ میں رہ کر بھی اپنے آپ میں نہیں
مگر یہ بھی نہیں کہ بالکل ہی اپنے آپ میں نہیں
اچانک شام کے سائے کبھی دن کے کسی پہر
مجھے اکثر یہ لگتا ہے میں اپنے آپ میں نہیں
شب کے اندھیروں میں کبھی دن کے اجالوں میں
یہی محسوس ہوتا ہے میں اپنے آپ میں نہیں
میری تنہائی میں اکثر ہیولہ سا ابھرتا ہے
جو میرے روبرو رہتا ہے اپنے آپ میں نہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے میرا وجود میرا ہے
مگر اس میں بھٹکتی روح اپنے آپ میں نہیں
خدا جانے یہ کیا احساس ہے کیسا تخیل ہے
کہ مجھ میں اور کوئی ہے میں اپنے آپ میں نہیں
میرے اور اس کے درمیاں کوئی دیوار حائل ہے
میں یہاں ہوں میرا سایہ ہی اپنے آپ میں نہیں
مجھے اکثر یہ لگتا ہے میرا کلبوت خالی ہے
میرا وجود خالی ہے میں اپنے آپ میں نہیں
کہیں پر بھی چلے جائیں لوٹ کے گھر کو آنا ہے
کہاں تک کوئی رہ سکتا ہے اپنے آپ میں نہیں
مجھے عظمٰی اچھوتی سی کہانی وہ سناتا ہے
کوئی اس وقت آ کر جب میں اپنے آپ میں نہیں