میں اگر اک لڑکی ہوتی
کیا میرے سنگ بھی ایسا ہوتا
جیسا اکثر ہوتا ہے
کیا جنم پر میرے بھی
مرجھا سے جاتے چہرے ایسے
سانپ نے سونگھ لیا ہو جیسے
روکھی سوکھی کھا کر بھی میں
بھوکی پیاسی رہ کر بھی میں
ہر اک ستم سہ کر بھی میں
ہوتی اکثر شاکر سی میں
بھیا سب کو پیارا ہوتا
سب کی آنکھ کا تارا ہوتا
کوئی کوئی سپنا میرا پورا ہوتا
اس کا کوئی نہ ادھورا ہوتا
جب بھی میں اکیلی ہوتی
ماں میری سہیلی ہوتی
اس کے سنگ میں کھیلی ہوتی
میں فقط ماں سے کہتی
مشکل جب پہیلی ہوتی
مسافت طے میں ایسے کرتی
ساون میں اک بیل کی مانند
بن رکے اک ریل کی
بڑھتے ہوئے میرے قد کے ساتھ
دیواریں میرے گھر کی بھی
مجھ سے دو گز اونچی ہوتیں
جب میں گھر سے باہر نکلتی
میرے ابو یا بھیا باہر میرے محافظ ہوتے
لمحہ بھر بھی مجھ کو نہ کبھی میرے حوالے کرتے
جب میں گھر سے باہر ہوتی
کئی درندہ نظریں میرا
دور تلک وہ پیچھا کرتیں
جب میں سولہویں سال میں ہوتی
میرے خوابوں میں بھی اک
ان دیکھا شہزادہ ہوتا
اس سے میرا کوئی وعدہ ہوتا
پھر ہوتا کچھ اس طرح کہ
ہارتی رسم و رواج سے میں
یا بغاوت کرتی سماج سے میں
پھر ہوتا کچھ اس طرح کہ
کوئی ان چاہا آتا
ڈولی میں مجھ کو لے جاتا
دل میرا کہیں اور ہوتا اور
جسم کسی کے قبضہ میں
گھٹ گھٹ کر میں مرتی ہوتی
میں اگر اک لڑکی ہوتی