مانند برگ گل ممکن ہے نکھارا جاؤں
میں تیری راہ سے گزروں تو سنوارا جاؤں
جانے رخ جھیل کی لہروں نے کہاں موڑ دیا
حق تو یہ تھا کہ میں اس پار اتارا جاؤں
میرے کردار میں لکھی ہے وفا عمر تمام
عین ممکن ہے کہ اس قصے میں مارا جاؤں
اتنی حسرت ہے کہ روز قیامت میں زوہیب
میں بھی کسی باب جنت سے پکارا جاؤں