میں تیرے پاس بھی اکثر اداس رہتا تھا
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Pakistanآگاہ ہوتے گئے جیسے ہم زمانے سے
تو دور ہونے لگے ہنسنے اور ہنسانے سے
بناؤ دوست تو ان کو نہ آزماؤ کبھی
کہ دوست رہتے نہیں دوست آزمانے سے
اسے تو جانا ہی تھا مجھ سے دور ہر صورت
چلو یہ اچھا ہوا چھوڑا اک بہانے سے
نہ روشنی کی کرن ہے نہ راستوں کا پتا
گریز پا ہیں مسافر دیہ جلانے سے
ہر ایک موج کو چھو کر پلٹ ہی جانا ہے
گلہ یہی تو ہے ساحل کو اک زمانے سے
میں تیرے پاس بھی اکثر اداس رہتا تھا
اداس اور بھی ہوں تیرے چھوڑ جانے سے
ہے بے سکونی بہت دل کہیں نہیں لگتا
سکون دل کو ملے تیرے پاس آنے سے
ہیں مسجدوں و کلیساؤں ، مندروں میں عیار
نکلتے دیکھا ہے صوفی کو بادہ خانے سے
ہوں ہوش میں تو غموں کا عذاب ہے زاہد
سکون میں ہیں سبھی لوگ یہ دیوانے سے
More General Poetry






