میں جس کے واسطے مر آیا
جی آخر اسی سے بھر آیا
جن نظروں پہ میں مرتا تھا
اُن نظروں سے ہی ڈر آیا
غم سارے اُسی کے ہاں چھوڑے
چُپکے سے اپنے گھر آیا
دل کی بستی میری اُجڑی
الزام بھی میرے سر آیا
کیا کرنا تھا کچھ پتہ نہ تھا
ناجانے کیا کیا کر آیا
نادؔاں نے طرف بہ طرف دیکھا
اِک عکس تیرا ہی نظر آیا