بیٹھا رہے وہ سامنے میں دیکھتا رہوں
تشنگی قائم رہے اور میں دیکھتا رہوں
اُڑ کر اُن سے اُن کی آتی رہے خوشبو
جھونکے چھوئیں مُجھے ، میں بھیگتا رہوں
دنیا کہے تو کہنےدو بس رہنے دو
کھا کر اُن کی ٹھوکریں میں سیکھتا رہوں
نعمان کو وہ چاہے ، نہ چاہے بھی اگر
اپنی وفا سے بے وفا کو سینکتا رہوں