محافل اور ہنگاموں میں دل گھبرا سا جاتا ہے
میں شاعر ہوں مجھے تنہا ہی رہنا راس آتا ہے
زمانے کا چلن کچھ اور ہے اپنا چلن کچھ اور
ہے لوگوں کو لگن پیسے کی پر اپنی لگن کچھ اور
ہوں سادہ دل مجھے دنیا کی رسموں سے نہیں مطلب
فریبوں ، جھوٹے وعدوں اور قسموں سے نہیں مطلب
کسی کی ٹوہ میں رہنا مری فطرت نہیں لوگو !
ناجائز مال کھا جانا مری عادت نہیں لوگو !
بہت عاجز ہوں مجھ کو طنز کرنا ہی نہیں آتا
تکبر میں کسی سے بات کرنا بھی نہیں بھاتا
میں انسانوں کی تکلیفوں پہ روتا اور سسکتا ہوں
محبت کا بھی اک غم ہے جسے چپ چاپ سہتا ہوں
خلوص و پیار کے نغمات گائے ہیں ہمیشہ ہی
مگر ان کے صلے میں غم اٹھائے ہیں ہمیشہ ہی
محبت کا یہاں بدلہ تو بس نفرت ہی پایا ہے
ملے ہیں خار جب بھی پھول الفت کا کھلایا ہے
یہ سب سچ ہے مگر مایوس اب تک میں نہ ہو پایا
امنگوں کا ترانہ دوستو ! ہر دور میں گایا
میں شاعر ہوں وطن کو ماں سمجھ کر پیار کرتا ہوں
مجھے جو کچھ ملا اس سے ملا اقرار کرتا ہوں
وطن کو جب پڑی میری ضرورت کام آؤں گا
رہے قائم ہمیشہ اس کی خاطر جاں لٹاؤں گا