میں نے پوچھا اس سے
میں نے پوچھا کیسے ہو
بدلے ہو یا ویسے ہو
میں نے پوچھا
روپ وہی انداز وہی
یا پھر اس میں کم کوئی
میں نے پوچھا
ہجر کا کوئی احساس تو ہوگا
کوئی تمھارے پاس تو ہوگا
اس نے کہا
میں بچھڑا یہ مجبوری تھی
کب منظور مجھے یہ دوری تھی
اس نے کہا
ساتھ ہمارا کب چھوٹا ہے
روح کا رشتہ کب ٹوٹا ہے
اس نے کہا
آنکھ سے آنسو جو بہتے ہیں
تم کو خبر ہے کیا کہتے ہیں
میں نے کہا
میں نے کہا آواز تمھاری
آج بھی ہے ہمراز ہماری
میں نے کہا
پھول وفا کے کھل جائینگے
اک دن ہم پھر مل جائینگے