میں نے تمام عمر اسی کو چاہا ہے
اس بات کا یقین اسے دلا دے کوئی
پلکوں کی چلمن پہ کوئی آنسو نہ رہے
تاروں سے بھری شام سجا دے کوئی
دل تو آزردہ و غمگین ہو چکا
من کے تاروں کو گیت سنا دے کوئی
بے جاں ہو چکا یہ لہو و جسم
اپنے لمس سے چو کر جگا دے کوئی
دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا
اس کو پہلے سا نیا بنا دے کوئی
زندگی کی کتاب میں تحریر
غم جاناں کا لفظ مٹا دے کوئی
میلا ہو چلا ہے کفن میرا
اب تو کاندھے پہ لے جا کے دفنا دے کوئی